بجلیاں ٹوٹ پڑیں جب وہ مقابل سے اٹھا
مل کے پلٹی تھیں نگاہیں کہ دھواں دل سے اٹھا
جلوہ محسوس سہی آنکھ کو آزاد تو کرقید آداب تماشا بھی تو محفل سے اٹھا
پھر تو مضراب جنوں ساز انا لیلیٰ چھیڑہائے وہ شور انا القیس کہ محمل سے اٹھا
اختیار ایک ادا تھی مری مجبوری کیلطف سعی عمل اس مطلب حاصل سے اٹھا
عمر امید کے دو دن بھی گراں تھے ظالمبار فردا نہ ترے وعدۂ باطل سے اٹھا
خبر قافلۂ گم شدہ کس سے پوچھوںاک بگولہ بھی نہ خاک رہ منزل سے اٹھا
ہوش جب تک ہے گلا گھونٹ کے مر جانے کادم شمشیر کا احساں ترے بسمل سے اٹھا
موت ہستی پہ وہ تہمت تھی کہ آساں نہ اٹھیزندگی مجھ پہ وہ الزام کہ مشکل سے اٹھا
کس کی کشتی تہ گرداب فنا جا پہنچیشور لبیک جو فانیؔ لب ساحل سے اٹھا
0 comments: