Friday, 25 November 2016

بھڑکائیں میری پیاس کو اکثر تیری آنکھیں



بھڑکائیں میری پیاس کو اکثر تیری آنکھیں

بھڑکائیں میری پیاس کو اکثر تیری آنکھیں 
صحرا میرا چہرہ ہے تو سمندر تیری آنکھیں

پھر کون بھلا دادِ تبسم انھیں دے گا 
روئیں گی بہت مجھ سے بچھڑ کر تیری آنکھیں 

بوجھل نظر آتی ہیں بظاہر مجھے لیکن 
کھلتی ہیں بہت دل میں اُتر کر تیری آنکھیں 

اب تک میری یادوں سے مٹائے نہیں مٹتا 
بھیگی ہوئی اک شام کا منظر تیری آنکھیں 

ممکن ہو تو اک تازہ غزل اور بھی کہہ لوں 
پھر اوڑھ نہ لیں خواب کی چادر تیری آنکھیں 

یوں دیکھتے رہنا اسے اچھا نہیں محسن 
وہ کانچ کا پیکر ہے تو پتھر تیری آنکھیں

0 comments: