Wednesday, 30 November 2016
Tuesday, 29 November 2016
سنو جاناں مجھے چھوڑ کر نہ جانا تم
| ||||||||||
میں پھر سے محبت کر رہا ہوں میں اس کی حسین آنکھوں میں کب کا ڈوب چکا ہوں دھیرے دھیرے اپنی جان سے گزر رہا ہوں میں پھر سے محبت کر رہا ہوں میٹھا میٹھا زہر اپنا دل میں بھر رہا ہوں میں پھر سے محبت کر رہا ہوں بہاروں کے موسم سے پھر گزر رہا ہوں دل ہی دل میں اجڑنے سے بھی ڈر رہا ہوں میں پھر سے محبت کر رہا ہوں مہکی ہوئی ہیں سانسیں آج مدت بعد میری دیکھ کر آہینے میں خود کو سنور رہا ہوں میں پھر سے محبت کر رہا ہوں کہتے ہیں ساگر عشق آگ کا دریا ہے میں جانتا ہوں مگر پھر بھی اتر رہا ہوں مٰیں پھر سے محبت کر رہا ہوں ضروری ہے تجھ سے بھی معذرت اے گزرے زمانے مجھے تو معاف کرنا میں تجھ سے بچھڑ رہا ہوں کھلی ہٰیں گلشن میں جو کلیاں نئی وہ چن رہا ہوں پلکوں پہ کچھ خواب نئے بُن رہا ہوں دھڑکنوں میں کسی کی صداہیں سن رہا ہوں اے محبت میں تیرا پھر اعتبار کر رہا ہوں میں جینے کی خاطر پھر سے مر رہا ہوں ہاں میں پھر سے محبت کر رہا ہوں |
Monday, 28 November 2016
جی ہی جی میں وہ جل رہی ہوگی |
جی ہی جی میں وہ جل رہی ہوگی
چاندنی میں ٹہل رہی ہوگی
چاند نے تان لی ہے چادرِ ابر
اب وہ کپڑے بدل رہی ہوگی
سو گئی ہوگی وہ شفق اندام
سبز قندیل جل رہی ہوگی
سرخ اور سبز وادیوںکی طرف
وہ مرے ساتھ چل رہی ہوگی
چڑھتے چڑھتے کسی پہاڑی پر
اب وہ کروٹ بدل رہی ہوگی
پیڑ کی چھال سے رگڑ کھا کر
وہ تنے سے پھسل رہی ہوگی
نیلگوں جھیل ناف تک پہنے
صندلیں جسم مل رہی ہوگی
ہو کے وہ خوابِ عیش سے بیدار
کتنی ہی دیر شل رہی ہوگی
چاندنی میں ٹہل رہی ہوگی
چاند نے تان لی ہے چادرِ ابر
اب وہ کپڑے بدل رہی ہوگی
سو گئی ہوگی وہ شفق اندام
سبز قندیل جل رہی ہوگی
سرخ اور سبز وادیوںکی طرف
وہ مرے ساتھ چل رہی ہوگی
چڑھتے چڑھتے کسی پہاڑی پر
اب وہ کروٹ بدل رہی ہوگی
پیڑ کی چھال سے رگڑ کھا کر
وہ تنے سے پھسل رہی ہوگی
نیلگوں جھیل ناف تک پہنے
صندلیں جسم مل رہی ہوگی
ہو کے وہ خوابِ عیش سے بیدار
کتنی ہی دیر شل رہی ہوگی
مدّت ہوئی ہے، یار کو مہماں کئے ہوئے مدّت ہوئی ہے، یار کو مہماں کئے ہوئے جوشِ قدح سے بزمِ چراغاں کئے ہوئے کرتا ہوں جمع پهر جگر لخت لخت کو عرصہ ہوا ہے دعوتِ مژگاں کئے ہوئے پهر وضعِ احتیاط سے رُکنے لگا ہے دم برسوں ہوئے ہیں چاکِ گریباں کئے ہوئے پهر گرمِ نالہ ہائے شرر بار ہے نفس مدّت ہوئی ہے سیر چراغاں کئے ہوئے پھر پرسشِ جراحتِ دل کو چلا ہے عشق سامانِ صد ہزار نمک داں کئے ہوۓ پهر بهر رہا ہے خامہ مژگاں، بہ خونِ دل سازِ چمن طرازیِ دَاماں کئے ہوئے باہم دِکر ہوئے ہیں دل و دیده پهر رقیب نظّاره و خیال کا سَاماں کئے ہوئے دِل پهر طوافِ کوۓ ملامت کو جائے ہے پندار کا صنم کده ویراں کئے ہوئے پهر شوق کر رہا ہے خریدار کی طلب عرضِ متاعِ عقل و دل و جاں کئے ہوے دوڑے ہے پهر ہر ایک گُل و لالہ پر خیال صد گلستاں نِگاه کا ساماں کئے ہوے پهر چاہتا ہوں نامہ دلدار کهولنا جاں نزرِ دل فریبی عنواں کئے ہوے مانگے ہے پهر، کسی کو لبِ بام پر ہوس زلفِ سیاہ رُخ پہ پریشاں کئے ہوے چاہے ہے پهر، کسی کو مقابل میں، آرزو سرمہ سے تیز دشنہ مژگاں کئے ہوے اک نو بہارِ ناز کو تا کے ہے پهر نِگاہ چہرہ فروغِ مے سے گُلستاں کئے ہوئے پهر، جی میں ہے کہ در پہ کسی کے پڑے رہیں سر زیر بارِ منّتِ درباں کئے ہوئے جی ڈهونڈتا ہے پهر وہی فرصت کے رات دن بیٹهے ہیں تصّورِ جاناں کئے ہوئے غالب! ہمیں نا چهیڑ کہ پهر جوشِ اشک سے بیٹهے ہیں ہم تہیّہ طوفاں کئے ہوئے |
Saturday, 26 November 2016
Paper Kerte Kerte
Paper kerte kerte dimagh
Itna kharab hogaya hai
Faraz
Maa kehti hai ke khany me kia doun?
Mein kehta hon ke extra sheet
!!!لفظاں دا امرت پیا کے وی لٹ لیندے نیں لوک لفظاں دا امرت پیا کے وی لٹ لیندے نیں لوک من وچ وس کے من نوں ڈھا کے اکثر ٹر جاندے نیں لوک بدل کے چہرے روپ وٹا کے اپنا مطلب کڈدے نیں کر کر کھوٹیاں کھریاں نوں وی کھوٹا کر دیندے نیں لوک کج تے گل اے درد تیرا ہس کے جو سہہ جاندے آں باہجھ وجہ توں یاداں دے وچ تے نئیں آندے نیں لوک عقل تے عشق دا ناں جوڑ کوئی عشق گلی گلی ناچا چھڑ دا عقل والے، عاشقاں نوں دیوانے کیہندے نیں لوک اپنا ہووے جیڑا عنبر ساتھ کدے وی چھڈدا نئیں مندیاں تے بے فیضاں ناں سدا کدوں رہندے نیں لوک. |
Friday, 25 November 2016
|
غزل تھی آپ کی مقطعے میں نام کس کا تھا
غزل تو خوب تھی پھر بھی کلام کس کا تھا
کسی کو ٓاج بھی ٓاتا نہیں یقیں اس پر
ملا جو ٓاپ کو پہلا انعام کس کا تھا
نہ تھا حبیب کوئی اور نہ رقیب کوئی
اٹھا کے ہاتھ ادب سے سلام کس کا تھا
ہمیں نکال کے محفل سے خوش ہوا کوئی
تمہارا ہو نہیں سکتا یہ کام کس کا تھا
نواز ہوگیا مدہوش کچھ پتہ نہ چلا
نظر سے پی گیا ٓاخر وہ جام کس کا تھا
غزل تو خوب تھی پھر بھی کلام کس کا تھا
کسی کو ٓاج بھی ٓاتا نہیں یقیں اس پر
ملا جو ٓاپ کو پہلا انعام کس کا تھا
نہ تھا حبیب کوئی اور نہ رقیب کوئی
اٹھا کے ہاتھ ادب سے سلام کس کا تھا
ہمیں نکال کے محفل سے خوش ہوا کوئی
تمہارا ہو نہیں سکتا یہ کام کس کا تھا
نواز ہوگیا مدہوش کچھ پتہ نہ چلا
نظر سے پی گیا ٓاخر وہ جام کس کا تھا
بھڑکائیں میری پیاس کو اکثر تیری آنکھیں
بھڑکائیں میری پیاس کو اکثر تیری آنکھیں
صحرا میرا چہرہ ہے تو سمندر تیری آنکھیں پھر کون بھلا دادِ تبسم انھیں دے گا روئیں گی بہت مجھ سے بچھڑ کر تیری آنکھیں بوجھل نظر آتی ہیں بظاہر مجھے لیکن کھلتی ہیں بہت دل میں اُتر کر تیری آنکھیں اب تک میری یادوں سے مٹائے نہیں مٹتا بھیگی ہوئی اک شام کا منظر تیری آنکھیں ممکن ہو تو اک تازہ غزل اور بھی کہہ لوں پھر اوڑھ نہ لیں خواب کی چادر تیری آنکھیں یوں دیکھتے رہنا اسے اچھا نہیں محسن وہ کانچ کا پیکر ہے تو پتھر تیری آنکھیں | |||||||||
درد مِنت کشِ دوا نہ ہوا میں نہ اچھا ہوا برا نہ ہو
'' درد مِنت کشِ دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا برا نہ ہوا
'' غالب
میری کاوش
جس میں اخلاص کا مزا نہ ہوا
وہ تعلق بھی دیر پا نہ ہوا
وہ کبھی دوست ہونہیں سکتا
جو کبھی تم سے گر خفا نہ ہوا
شدتِ غم سے دل رکا ایسے
پھردھڑکنےکاحوصلہ نہ ہوا
میرا قد اور ہو گیا اونچا
کھینچنے والوں سےگلا نہ ہوا
ڈھونڈتےہو اسے بتوں میں کیا
ہاتھ جو آئے وہ خدا نہ ہوا
یوں تو دنیا میں ہیں بہت شاعر
تجھ سا غالب غزل سرا نہ ہوا
Thursday, 24 November 2016
بھڑکائیں میری پیاس کو اکثر تیری آنکھیں
بھڑکائیں میری پیاس کو اکثر تیری آنکھیں
صحرا میرا چہرہ ہے تو سمندر تیری آنکھیں پھر کون بھلا دادِ تبسم انھیں دے گا روئیں گی بہت مجھ سے بچھڑ کر تیری آنکھیں بوجھل نظر آتی ہیں بظاہر مجھے لیکن کھلتی ہیں بہت دل میں اُتر کر تیری آنکھیں اب تک میری یادوں سے مٹائے نہیں مٹتا بھیگی ہوئی اک شام کا منظر تیری آنکھیں ممکن ہو تو اک تازہ غزل اور بھی کہہ لوں پھر اوڑھ نہ لیں خواب کی چادر تیری آنکھیں یوں دیکھتے رہنا اسے اچھا نہیں محسن وہ کانچ کا پیکر ہے تو پتھر تیری آنکھیں | |||||||||