Wednesday, 30 November 2016

خوش نصیب بجہ ۔۔۔۔۔۔۔



خوش نصیب بجہ ۔۔۔۔۔۔۔

یکے بعد دیگرے کئی در ترقی کےکھل رہے ہیں نئے

جیسےگوادر بھی کوئی خوش نصیب بجہ ہو نو مولود

پورٹ کے ارد گر زیر زمیں یا سطح سمندر کے نیچے

دیگر معدینیات ووسیع تیل کے زخائر بھی ہیں موجود

Tuesday, 29 November 2016

سنو جاناں مجھے چھوڑ کر نہ جانا تم


سنو جاناں مجھے چھوڑ کر نہ جانا تم
سنو جاناں مجھے چھوڑ کر نہ جانا تم 
سبھی قسمیں سبھی رسمیں محبت کی نبھانا تم 
تمہارے بن یہ زندگی مجھے بے نور لگتی ہے 
تمہارے بن ہر ایک خوشی خود سے دور لگتی ہے
تمہارے بن میری سانسیں جاناں سینے میں گھٹتی ہیں
تمہارے بن دھڑکینیں میری قدم قدم پہ رکتی ہیں 

دیا ہے ساتھ میرا تو تعلق بھی نبھانا تم 
سنو جاناں مجھے چھوڑ کر نہ جانا تم 

میری آنکھوں نے رتجگوں کے کئی عذاب دیکھے ہیں
تم ملے ہو تو آنکھوں نے پھر کچھ خواب دیکھے ہیں 
ملا کر نظر ہم سے پھر نگاہیں نہ چرانا تم 
سنو جاناں مجھے چھوڑ کر نہ جانا تم 
مجھے چھوڑ کر تم رسمِ زمانہ بھی تو نبھاو گے 
بھلا کیا خطا ہے اس میں اگر تم مجھ کو چاہوگے

تمہیں ترسیں میری آنکھیں نہ مجھ کو یوں ستانہ تم 
سنو جاناں مجھے چھوڑ کر نہ جانا تم 

تمہیں دیکھا ہے تو مجھے زندگی سے پیار ہوا ہے 
دل پھر سے محبت کا طلبگار ہوا ہے 
اتنی سے التجا ہے کہ مجھ کو نہ بھلانا تم 
سنوجاناں مجھے چھوڑ کر نہ جانا تم 

دہرانا نہ فریبِ وفا کو پھر سے جاناں 
پونچھے ہیں اگر آنسو تو مجھ کو نہ رلانا تم 
سنو جاناں مجھے چھوڑ کر نہ جانا تم 

دیا ہے ساتھ اگرمیرا تو تعلق بھی نبھانا تم 
سنو جاناں مجھے چھوڑ کر نہ جانا تم
میں پھر سے محبت کر رہا ہوں



میں پھر سے محبت کر رہا ہوں
میں اس کی حسین آنکھوں میں کب کا ڈوب چکا ہوں 
دھیرے دھیرے اپنی جان سے گزر رہا ہوں 
میں پھر سے محبت کر رہا ہوں 
میٹھا میٹھا زہر اپنا دل میں بھر رہا ہوں
میں پھر سے محبت کر رہا ہوں 
بہاروں کے موسم سے پھر گزر رہا ہوں 
دل ہی دل میں اجڑنے سے بھی ڈر رہا ہوں 
میں پھر سے محبت کر رہا ہوں 

مہکی ہوئی ہیں سانسیں آج مدت بعد میری 
دیکھ کر آہینے میں خود کو سنور رہا ہوں 
میں پھر سے محبت کر رہا ہوں 
کہتے ہیں ساگر عشق آگ کا دریا ہے
میں جانتا ہوں مگر پھر بھی اتر رہا ہوں 
مٰیں پھر سے محبت کر رہا ہوں 

ضروری ہے تجھ سے بھی معذرت اے گزرے زمانے 
مجھے تو معاف کرنا میں تجھ سے بچھڑ رہا ہوں 
کھلی ہٰیں گلشن میں جو کلیاں نئی وہ چن رہا ہوں
پلکوں پہ کچھ خواب نئے بُن رہا ہوں 
دھڑکنوں میں کسی کی صداہیں سن رہا ہوں 
اے محبت میں تیرا پھر اعتبار کر رہا ہوں 
میں جینے کی خاطر پھر سے مر رہا ہوں 
ہاں میں پھر سے محبت کر رہا ہوں
جھکتا نہیں دنیا کے توبت خانے میں



جھکتا نہیں دنیا کے توبت خانے میں




لگتا ہے کیوں دل تیرا اِس مے خانے میں
جھکتا نہیں دنیا کے توبت خانے میں

وہ ہی ہے خالق تیری چاہت جس کی ہے
رہتا ہے تیرے دل کے پیمانے میں

آئینہ دل بس صاف ہے تیرا اگر
سجدہ ہے تیرا دل کے اِس بت خانے میں

 
بےوفا صنم


بےوفا صنم



مانگا تھا تجھے پرچائی کی طرح
تم نے تنہاء کردیا مجھے تنہائی کی طرح 

کس طرح کرتا میں وفا اُس پے فہیم 
اُس نے وفا بھی کی بےوفائی کی طرح

Monday, 28 November 2016

جی ہی جی میں وہ جل رہی ہوگی



جی ہی جی میں وہ جل رہی ہوگی


جی ہی جی میں وہ جل رہی ہوگی
چاندنی میں ٹہل رہی ہوگی

چاند نے تان لی ہے چادرِ ابر
اب وہ کپڑے بدل رہی ہوگی

سو گئی ہوگی وہ شفق اندام
سبز قندیل جل رہی ہوگی

سرخ اور سبز وادیوںکی طرف
وہ مرے ساتھ چل رہی ہوگی

چڑھتے چڑھتے کسی پہاڑی پر
اب وہ کروٹ بدل رہی ہوگی

پیڑ کی چھال سے رگڑ کھا کر
وہ تنے سے پھسل رہی ہوگی

نیلگوں جھیل ناف تک پہنے
صندلیں جسم مل رہی ہوگی

ہو کے وہ خوابِ عیش سے بیدار
کتنی ہی دیر شل رہی ہوگی
مدّت ہوئی ہے، یار کو مہماں کئے ہوئے



مدّت ہوئی ہے، یار کو مہماں کئے ہوئے

مدّت ہوئی ہے، یار کو مہماں کئے ہوئے
جوشِ قدح سے بزمِ چراغاں کئے ہوئے

کرتا ہوں جمع پهر جگر لخت لخت کو
عرصہ ہوا ہے دعوتِ مژگاں کئے ہوئے

پهر وضعِ احتیاط سے رُکنے لگا ہے دم
برسوں ہوئے ہیں چاکِ گریباں کئے ہوئے

پهر گرمِ نالہ ہائے شرر بار ہے نفس
مدّت ہوئی ہے سیر چراغاں کئے ہوئے

پھر پرسشِ جراحتِ دل کو چلا ہے عشق
سامانِ صد ہزار نمک داں کئے ہوۓ

پهر بهر رہا ہے خامہ مژگاں، بہ خونِ دل
سازِ چمن طرازیِ دَاماں کئے ہوئے

باہم دِکر ہوئے ہیں دل و دیده پهر رقیب
نظّاره و خیال کا سَاماں کئے ہوئے

دِل پهر طوافِ کوۓ ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کده ویراں کئے ہوئے

پهر شوق کر رہا ہے خریدار کی طلب
عرضِ متاعِ عقل و دل و جاں کئے ہوے

دوڑے ہے پهر ہر ایک گُل و لالہ پر خیال
صد گلستاں نِگاه کا ساماں کئے ہوے

پهر چاہتا ہوں نامہ دلدار کهولنا
جاں نزرِ دل فریبی عنواں کئے ہوے

مانگے ہے پهر، کسی کو لبِ بام پر ہوس
زلفِ سیاہ رُخ پہ پریشاں کئے ہوے

چاہے ہے پهر، کسی کو مقابل میں، آرزو
سرمہ سے تیز دشنہ مژگاں کئے ہوے

اک نو بہارِ ناز کو تا کے ہے پهر نِگاہ
چہرہ فروغِ مے سے گُلستاں کئے ہوئے

پهر، جی میں ہے کہ در پہ کسی کے پڑے رہیں
سر زیر بارِ منّتِ درباں کئے ہوئے

جی ڈهونڈتا ہے پهر وہی فرصت کے رات دن
بیٹهے ہیں تصّورِ جاناں کئے ہوئے

غالب! ہمیں نا چهیڑ کہ پهر جوشِ اشک سے
بیٹهے ہیں ہم تہیّہ طوفاں کئے ہوئے
 

Saturday, 26 November 2016

شب ِ ظلمت

شب ِ ظلمت

تبسمِ جاناں کی جو شناسائی ھو جائے
دلِ ویراں کو فصلِ گل کی عنائی ھو جائے

یہ خسرت رھی کے بزمِ یار میں محوِ گفتگو ھوں
کہیں میری زباں کو سلیقہِ گویائی ھو جائے

سنبھل جائے اگر یہ ٹوتا ھوا شحّض پھر سے
سنگِ مر مر پہ چلنے کی کوتائی نہ ھو جائے
!!!لفظاں دا امرت پیا کے وی لٹ لیندے نیں لوک

!!!لفظاں دا امرت پیا کے وی لٹ لیندے نیں لوک
لفظاں دا امرت پیا کے وی لٹ لیندے نیں لوک
من وچ وس کے من نوں ڈھا کے اکثر ٹر جاندے نیں لوک

بدل کے چہرے روپ وٹا کے اپنا مطلب کڈدے نیں
کر کر کھوٹیاں کھریاں نوں وی کھوٹا کر دیندے نیں لوک

کج تے گل اے درد تیرا ہس کے جو سہہ جاندے آں
باہجھ وجہ توں یاداں دے وچ تے نئیں آندے نیں لوک

عقل تے عشق دا ناں جوڑ کوئی عشق گلی گلی ناچا چھڑ دا
عقل والے، عاشقاں نوں دیوانے کیہندے نیں لوک

اپنا ہووے جیڑا عنبر ساتھ کدے وی چھڈدا نئیں
مندیاں تے بے فیضاں ناں سدا کدوں رہندے نیں لوک.

Friday, 25 November 2016

غزل تھی آپ کی



غزل تھی آپ کی


غزل تھی آپ کی مقطعے میں نام کس کا تھا 
غزل تو خوب تھی پھر بھی کلام کس کا تھا

کسی کو ٓاج بھی ٓاتا نہیں یقیں اس پر
ملا جو ٓاپ کو پہلا انعام کس کا تھا

نہ تھا حبیب کوئی اور نہ رقیب کوئی 
اٹھا کے ہاتھ ادب سے سلام کس کا تھا

ہمیں نکال کے محفل سے خوش ہوا کوئی 
تمہارا ہو نہیں سکتا یہ کام کس کا تھا

نواز ہوگیا مدہوش کچھ پتہ نہ چلا 
نظر سے پی گیا ٓاخر وہ جام کس کا تھا
بھڑکائیں میری پیاس کو اکثر تیری آنکھیں


بھڑکائیں میری پیاس کو اکثر تیری آنکھیں

بھڑکائیں میری پیاس کو اکثر تیری آنکھیں 
صحرا میرا چہرہ ہے تو سمندر تیری آنکھیں

پھر کون بھلا دادِ تبسم انھیں دے گا 
روئیں گی بہت مجھ سے بچھڑ کر تیری آنکھیں 

بوجھل نظر آتی ہیں بظاہر مجھے لیکن 
کھلتی ہیں بہت دل میں اُتر کر تیری آنکھیں 

اب تک میری یادوں سے مٹائے نہیں مٹتا 
بھیگی ہوئی اک شام کا منظر تیری آنکھیں 

ممکن ہو تو اک تازہ غزل اور بھی کہہ لوں 
پھر اوڑھ نہ لیں خواب کی چادر تیری آنکھیں 

یوں دیکھتے رہنا اسے اچھا نہیں محسن 
وہ کانچ کا پیکر ہے تو پتھر تیری آنکھیں
درد مِنت کشِ دوا نہ ہوا میں نہ اچھا ہوا برا نہ ہو



درد مِنت کشِ دوا نہ ہوا میں نہ اچھا ہوا برا نہ ہو


'' درد مِنت کشِ دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا برا نہ ہوا
'' غالب 

میری کاوش

جس میں اخلاص کا مزا نہ ہوا
وہ تعلق بھی دیر پا نہ ہوا

وہ کبھی دوست ہونہیں سکتا
جو کبھی تم سے گر خفا نہ ہوا

شدتِ غم سے دل رکا ایسے
پھردھڑکنےکاحوصلہ نہ ہوا

میرا قد اور ہو گیا اونچا
کھینچنے والوں سےگلا نہ ہوا

ڈھونڈتےہو اسے بتوں میں کیا
ہاتھ جو آئے وہ خدا نہ ہوا

یوں تو دنیا میں ہیں بہت شاعر
تجھ سا غالب غزل سرا نہ ہوا

Thursday, 24 November 2016

بھڑکائیں میری پیاس کو اکثر تیری آنکھیں


بھڑکائیں میری پیاس کو اکثر تیری آنکھیں


بھڑکائیں میری پیاس کو اکثر تیری آنکھیں 
صحرا میرا چہرہ ہے تو سمندر تیری آنکھیں

پھر کون بھلا دادِ تبسم انھیں دے گا 
روئیں گی بہت مجھ سے بچھڑ کر تیری آنکھیں 

بوجھل نظر آتی ہیں بظاہر مجھے لیکن 
کھلتی ہیں بہت دل میں اُتر کر تیری آنکھیں 

اب تک میری یادوں سے مٹائے نہیں مٹتا 
بھیگی ہوئی اک شام کا منظر تیری آنکھیں 

ممکن ہو تو اک تازہ غزل اور بھی کہہ لوں 
پھر اوڑھ نہ لیں خواب کی چادر تیری آنکھیں 

یوں دیکھتے رہنا اسے اچھا نہیں محسن 
وہ کانچ کا پیکر ہے تو پتھر تیری آنکھیں