Monday, 5 December 2016

بجلیاں ٹوٹ پڑیں جب وہ مقابل سے اٹھا




بجلیاں ٹوٹ پڑیں جب وہ مقابل سے اٹھا
بجلیاں ٹوٹ پڑیں جب وہ مقابل سے اٹھا
مل کے پلٹی تھیں نگاہیں کہ دھواں دل سے اٹھا
جلوہ محسوس سہی آنکھ کو آزاد تو کرقید آداب تماشا بھی تو محفل سے اٹھا
پھر تو مضراب جنوں ساز انا لیلیٰ چھیڑہائے وہ شور انا القیس کہ محمل سے اٹھا
اختیار ایک ادا تھی مری مجبوری کیلطف سعی عمل اس مطلب حاصل سے اٹھا
عمر امید کے دو دن بھی گراں تھے ظالمبار فردا نہ ترے وعدۂ باطل سے اٹھا
خبر قافلۂ گم شدہ کس سے پوچھوںاک بگولہ بھی نہ خاک رہ منزل سے اٹھا
ہوش جب تک ہے گلا گھونٹ کے مر جانے کادم شمشیر کا احساں ترے بسمل سے اٹھا
موت ہستی پہ وہ تہمت تھی کہ آساں نہ اٹھیزندگی مجھ پہ وہ الزام کہ مشکل سے اٹھا
کس کی کشتی تہ گرداب فنا جا پہنچیشور لبیک جو فانیؔ لب ساحل سے اٹھا

0 comments: